Wednesday, August 30, 2023

سامری جادوگر کا بچھڑااورآج کاسوشل میڈیا

 

سامری جادوگر کا بچھڑااورآج کاسوشل میڈیا

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کوہ طور پر چلے جانے کے بعد سامری جادوگرنے موقع کو غنیمت سمجھا کیوں کہ  اس نے بنی اسرائیل کی ذہنیت کو دیکھ لیا تھا کہ یہ ۲۳ سال جناب موسیٰ کی خدمات اور تبلیغ کے باوجود جب دریا کے پار بت پرستوں کو دیکھتے ہیں تو ایک مصنوعی خدا کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی اس خواہش کا سہارا لے کر اس نے ایک مجسمہ تیار کیا اور قوم میں اعلان کردیا کہ یہی تمہارا اور موسیٰ کا خدا ہے۔ قوم نے اپنی جہالت و حماقت کی بنا پر  ایک ایسے مصنوعی  بچھڑے کی پرستش شروع کردی  جو نہ اُنھیں کسی اچھی بات کی ہدایت کرسکتا تھا اور نہ کسی برائی سے روک سکتا تھا  یہاں تک کے اس سلسلے میں انھوں نے جناب ہارون کی ایک نہ سنی۔ جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ گمراہ قوم نبی کے جانشین کی پرواہ نہیں کرتی ہے اور اپنے بنائے ہوئے کو ہر حق و حقیقت پر مقدم کر دیتی ہے۔


قدرت نے اس خدا سازی کا ایک ہی جواب دیا کہ آواز پیدا  ہوجانا کمال نہیں ہے۔ اتنا تو دیکھو کہ یہ نہ بات کرسکتا ہے اور نہ ہدایت کرسکتا ہے اور ایسا عاجز و مجبور خدا نہیں ہوسکتا۔  اگر فرض کریں کہ وہ ایک حقیقی  گوسالہ میں تبدیل ہوگیا تھا تب بھی وہ کسی صورت لائق پرستش نہیں ہوسکتا  بھلا وہ گوسالہ جو نافہمی میں مشہور   ہے یعنی اس کی سمجھ میں  کچھ نہیں آتا تو یہ لائق پرستش کس طرح ہوسکتا ہے۔  

سرکارِ دو عالم کے بعد امت اسلامیہ میں ایسا ہی انقلاب آیا تھا جیسا  کہ جناب موسیٰ کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل میں آیا تھا۔ قوم نے صرف آواز کو ہنر بنالیا اور ہدایت کی صلاحیت کو یکسر نظر انداز کردیا۔ اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے کہ بعض لوگ   آوازیں تو نکالنا جانتے ہیں لیکن ہدایت سے خالی ہوتے ہیں۔ قوم کو سوچنا چاہیے کہ صرف آوازوں اور ترنم کے پیچھے نہ جائے بلکہ مقصد عزاداری یعنی ہدایت پرنظر رکھے۔

سامری کا بچھڑا اور  آج کا  سوشل میڈیا

موسیٰ کی قوم نے  زیورات سے   مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی  اور وہ کوئی غیرمعمولی بے وقعت چیزوں سے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ قیمتی طلائی زیورات سے بنایا گیا تھا   اس پر بڑا سرمایہ لگایا تھا اور اس میں آواز بھی پیدا کی گئی تھی تاکہ صرف تصویر نہ ہو بلکہ تصویر کے ساتھ آواز بھی ہو  کیونکہ بھرپورگمراہی کے لئے صرف تصویر کافی نہیں ہوتی، آواز بھی ضروری ہوتی ہے۔تو آج کے بڑے بڑے سامریوں نے کثیر سرمایہ خرچ کرکے مختلف سوشل میڈیا چینلز کے بچھڑے بنالیے ہیں جن میں تصویر کے ساتھ ساتھ مختلف پرکشش آوازیں بھی ڈال دی گئی ہیں  اور قوم ہے کہ قوم بنی اسرئیل کی طرح ہارون زمانہ جانشین مصطفی ؐ وارث انبیاء کی اطاعت و سیرت کو چھوڑ کر بچھڑے کی پرستش میں لگ گئی ہے۔وہ پردۂ غیب سے مسلسل آوازیں دے رہا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جو اس کی آواز ہدایت پر لبیک کہہ رہے ہیں اور حرام سے بچ رہے ہیں، گناہوں سے کنارہ کش ہیں۔ کنیزی حضرت زینبؑ کا دعویٰ کرنے والی کتنی خواتین ہیں جو اس وارث مرتضیٰ، دلبند زہرا ؑ محافظ عظمت زینب کبریٰ کی سیرت پر چل رہی ہیں؟ یا اسی سامری کے بچھڑے یعنی چینلز کی آوازوں پر اپنے کانوں کو جمائے ہوئے ہیں۔ سوچیں شادی بیاہوں میں ہماری خواتین کالباس خوشنودی زہرا  وزینب علیہما السلام کا باعث ہوتا ہے یا موجودہ سامریوں کی خواہش کے مطابق ؟

بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے عوامل

۱۔ ماحول کا اثر؛ بنی اسرائیل عرصہ دراز سے مصریوں کی گوسالہ پرستی کو دیکھ رہے تھے جس کا ان کے ذہنوں پر مسلسل ایک  خاص اثر ہو رہا تھا۔

۲۔ جب وہ فرعون کے چنگل سے نجات حاصل کرکے دریائے نیل کے پار پہنچے تو انھوں نے وہاں بت پرستی (بشکل گوسالہ پرستی) دیکھی جس نے ان کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرلیا تھا جیساکہ اس سے ماقبل کی آیات میں موجود ہے کہ انہوں نے موسیٰ سے پرستش کے لیے ان کے جیسے بت کا تقاضا کیا تھا جس نے حضرت موسیٰ سے ان کی کافی سرزنش کی تھی۔

۳۔ حجت خدا کی غیبت اور قوم کی آزمائش: جب  حضرت موسیٰ اپنی قوم سے جدا ہوکر تیس دن کے لیے کوہ طور پر گئے اوروہاں اللہ نے مزید دس دن کے لیے انہیں روک لیا تو منافقین نے حضرت موسیٰ کی موت کا چرچا کرنا شروع کر دیا جیسا کہ بعض تفاسیر میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ جس میں قوم کی آزمائش تھی کہ وہ اس دوران راہ موسیٰ پر قائم رہتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔

۴۔ جہل و نادانی؛ قوم کے اکثر لوگوں کی نادانگی و جہالت کے سبب عیار و مکار لوگوں نے اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کے لیے اس موقع کو اپنے لیے غنیمت سمجھا اورقوم کو حقیقت سے دور کرکے بچھڑا پرستی پر لگا دیا۔

۵۔ زرق و برق ظاہری؛ بچھڑے کے ظاہری زرق و برق ہونے نے بھی انہیں اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔

۶۔ جھوٹی تبلیغات اور شور و غوغا؛ بچھڑے میں جھوٹی آواز پیدا کرکے اس کا اتنا چرچا کیا گیا کہ جو لوگ سادہ لوح تھے وہ سامری کی جھوٹی تبلیغات اور شور و غوغا میں آگئے۔


Labels:

Tuesday, August 29, 2023

فرعونی مزاج مذہب کے ٹھیکیدار

 مذہب کے ٹھیکیدار- فرعونی مزاج 


فرعون  نے حضرت موسیٰ علیہ السلا م کے معجزات دیکھ کر انھیں جادوگر ثابت کرنے کی غرض سے اپنی سلطنت کے بڑے بڑے جادوگروں کو انعامات کا لالچ دے کر جمع کرلیا  فرعون کے جمع کئے ہوئے جادو گروں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا   اے موسیٰ ! آپ عصا پھینکیں گے یا ہم اپنے کام کا آغاز کریں؟ پہلے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انھیں وعظ و نصیحت کی اور جادو کے عمل سے باز رہنے کو کہا لیکن جب وہ نہ مانے تو حضرت  موسیٰ نے کہا کہ تم ابتداء کرو۔ وہ جادوگر آپس میں ایک دوسرے کی ہمت بڑھانے لگے اور ایک دوسرے کو پیش قدمی کی تلقین کرنے لگے  کیوں کہ فرعون نے ان سے قیمتی انعامات کے وعدے کررکھے تھے لیکن شیطانی وعدے تو دھوکہ اور فریب ہی ہوتے ہیں ان  جادوگروں نے اپنی اپنی رسیاں پھینکیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرکے انھیں وہی دِکھایا جو وہ دِکھانا چاہتے تھے اور انھیں  اپنے اس جادو سےخوفزدہ کردیا اور بہت بڑے جادو کا مظاہرہ کیا  ،  پھرہم نے موسیٰ کو اشارہ کیا کہ اب تم بھی اپنا عصا ڈال دو وہ ان کے تمام جادو کے سانپوں کو نگل جائے گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حق ثابت ہوگیا اور ان کا کاروبار باطل ہوگیا وہ سب مغلوب ہوگئے اور سب کے سب سجدے میں گر پڑے اور کہنے لگے ہم ہارون اور موسیٰ کے خدا پر ایمان لے آئے۔

فرعون بولا: پیشتر اس کے کہ میں تمہیں اجازت دوں تم اس پر ایمان لے آئے بیشک وہ تمہارا بڑا (استاد) ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے، سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کٹوا دوں گا اور تمہیں کھجور کے تنوں پر سولی چڑھا دوں گا۔ اس وقت تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر تک رہنے والا ہے۔ انہوں نے کہا: جو دلائل ہمارے پاس آ گئے ہیں، ان پر اور جس نے ہمیں پیدا کیا اس پر ہم تجھے ہر گز ترجیح نہیں دیں گے، سو تجھے جو حکم دینا ہے، دے دے۔ اور تُو جو حکم دے سکتا ہے وہ دنیا ہی کی زندگی میں (دے سکتا) ہے۔ بیشک ہم اپنے پروردگار پر ایمان لاۓ ہیں تاکہ وہ ہمارے گناہوں کو معاف کرے اور (اسے بھی) جو تو نے ہم سے زبردستی جادو کروایا اور اللہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ جو شخص اپنے پروردگار کے پاس گنہگار ہو کر آئے تو اس کے لئے جہنم ہے جس میں نہ مرے گا اور نہ جیے گا اور جو اسکے روبرو ایماندار ہو کر آئیگا اور اس نے عمل بھی نیک کئے ہوں گے تو ایسے لوگوں کے لئے اونچے اونچے درجے ہیں (یعنی) ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ ہمیشہ ان میں رہیں گے اور یہ اس شخص کا بدلہ ہے جو پاک ہوا۔"طہٰ: ۷۰۔۷۶

حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ ارشاد گرامی "میں معجزہ لیکر آیا ہوں لہذا بنی اسرائیل کو میرے ساتھ بھیج دے" اس بات کی دلیل ہے کہ نبی خدا  قوم کو مصائب سے نجات دلانے اور ان کی دنیا و آخرت کا انتظام کرنے کے لئے اقدام کرتا ہے اسے سلطنت اور حکومت  کا کوئی شوق نہیں ہوتا اور فرعون کا سارا فساد اس شاہانہ مزاج کا نتیجہ ہے کہ اپنا اقتدار سلامت رہے چاہے قوم   تباہ ہوجائے اور حقائق کس قدر پامال کیوں نہ ہوجائیں۔

قرآن مجید کا یہ فقرہ کہ ان لوگوں نے رسیاں پھینکیں تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا (اعراف/ ۱۱۶) اور  سورہ طہ کی آیت ۶۶ (کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں جادو کی بنا پر ایسی لگنے لگیں جیسے سب دوڑ رہی ہوں) دلیل ہے کہ جادوگروں کے جادو کی کوئی حیثیت نہ تھی اورانھوں نے صرف نظر بندی سے کام لیا تھا اور ان کا کاروبار صرف اس نظر بندی سے چل رہا تھا انہیں اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ نبوت کی نگاہ میں جلوۂ الوہیت ہوتا ہے اور اس کی نگاہ پر ان نظربندیوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ جادوگر اپنے دَور میں دین و مذہب کے ٹھیکیدار شمار کیے جاتے تھے اور انھوں نے تحفظ دین کے بارے میں بھی فرعون سے سودے بازی شروع کردی تھی جو ہر دور کے خود ساختہ مذہبی ٹھیکیداروں کا حال ہوتا ہے کہ وہ مذہب کی حفاظت کے نام پر سودے بازی کرنے لگتے ہیں گویا مذہب کسی اور کا ہے اور یہ صرف کرائے کے کاریگر یا واقعاً بازیگر ہیں۔

واضح رہے کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے جادوگروں سے پہل کرنے کا مطالبہ کرکے دو باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے:

پہلی بات یہ کہ اللہ والے آخری امکان تک پہل نہیں کرتے  بلکہ حملہ آور کے حملے کاجواب دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہ جادو دِکھلانے کی دعوت نہیں تھی کہ اسے خلاف ِشان نبوت قرار دیا جائے یہ صرف ایک طرح کی بے نیازی اور برتری کا اعلان تھا کہ تم جو کچھ چاہو جادو کرلو میری صحت پر کوئی اثر ہونے والا نہیں ہے اور میں ذرّہ برابر بھی متأثر ہوسکتا ، تو اس بے نیازی کے لہجے میں چیلنج نہ کرتا۔

 

Labels:

Monday, August 14, 2023

اونٹ صحرائی جہاز

 

 اونٹ صحرائی جہاز

اونٹ زمینی (صحرائی) جانوروں میں سے ایک بڑی جسامت رکھنے والا خوبصورت جانور ہے۔ اونٹ کو دو اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے ایک عربی جس کا ایک کوہان ہوتا ہے جب کہ دوسری قسم بختیاری کہلاتی ہے جس کے دو کوہان ہوتے ہیں۔ اونٹ کا بطور سواری استعمال تقریباً ڈھائی سے تین ہزار سال پرانا ہے۔

اونٹ صحرائی جہاز


اونٹ میں ایسی خصوصیات  پائی جاتی ہیں جو اسے دیگر حیوانات سے ممتاز بنا دیتی ہیں۔

۱۔ بعض جانوروں کا صرف گوشت قابل استفادہ ہوتا ہے۔ بعض کا غالباٍ دودھ زیادہ ا ستعمال ہوتا ہے۔ بعض صرف سواری ہی کے قابل ہوتے ہیں اور بعض صرف بار برداری کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن اونٹ ایک ایسا حیوان ہے جو ان تمام پہلوؤں سے قابل استفادہ ہے۔ اس کا گوشت بھی استعمال ہوتا ہے اس کی کھال بھی قابلِ استفادہ  ہوتی ہے اس کا دودھ بھی پیا جاتا ہے بلکہ اس کا دودھ گائے کے دودھ سے بہتر ہوتا ہے جو صحت کے لیے بہت مُفید ہوتا ہے اور اکثر ادویات کی تیاری میں بھی کام آتا ہے،  یہ سواری کے کام بھی آتا ہے اور باربرداری کے کام بھی آتا ہے۔  عرب ممالک میں اونٹ کی دوڑ کے مقابلے منعقد کیے جاتے ہیں۔

۲۔ اونٹ پالتو جانوروں میں سے سب سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہوتا ہے۔ اچھا خاصا وزن لیکر چل لیتا ہے۔ حد یہ ہے کہ بیٹھے ہوئے اونٹ پر وزن لاد یجئے، وزن لیکر اسی طرح کھڑا ہوجائے گا جبکہ عام طور پر دیگر حیوانات میں یہ صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔  اونٹ کو ریگستانی سفر کے لیے بہترین سواری سمجھا جاتا ہے اسی لیے اسے ریگستان  کا جہاز بھی کہتے ہیں ۔

۳۔ اونٹ عرصہ دراز (ایک ہفتہ سے دس دن) تک مسلسل پیاسا رہ سکتا ہے۔ اسی طرح یہ بھوک کا بھی مقابلہ کرلیتا ہے۔

۴۔ اونٹ دن بھر میں کافی طولانی فاصلہ طے کرنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بھاری بھرکم سازوسامان کے ساتھ صعب العبور راستوں اور ریگستانوں سے بآسانی گزرنے کی صلاحیت سے مالا مال ہے جبکہ دیگر جانور ان راستوں سے گزرنے کی بھرپور صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی لئے عرب ا سے صحراؤں کی کشتی قرار دیتے ہیں۔

۵۔ یہ خوراک کے اعتبار سے بھی نہایت کم خرچ ہے۔ جھاڑ جھنکار اور خس و خاشاک سب ہی کچھ آرام سے کھا لیتا ہے۔  اور کئی کئی دن کی خوراک اپنے کوہان میں ذخیرہ کرلیتا ہے اور پھر ضرورت پڑنے پر وہیں سے حاصل کرتا رہتا ہے۔

۶۔ یہ صحراؤں میں اٹھنے والے ریت کے طوفان اور نہایت نامناسب ہوا میں بھی مقابلہ کرلیتا ہے، کہ جن میں آنکھیں اندھی اور کان بہرے ہوجاتے ہیں۔ خداوند عالم نے اس کی آنکھوں کی پلکوں، کانوں اور ناک میں ایسے وسائل مہیا کئے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے راستے کو طے کرتا ہوا آگے بڑھتا رہتا ہے۔

۷۔ اونٹ اپنی اس تمام طاقت کے باوجود بآسانی رام ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک  بچہ بھی اونٹوں کی قطار کی مہار تھام کر اپنی مرضی سے انہیں جہاں چاہے لے جاسکتا ہے۔

ایک محیط اندازے کے مطابق دُنیا میں اس وقت تقریباً ڈیڑھ کروڑ اونٹ پائے جاتے ہیں۔


Labels: