سامری جادوگر کا بچھڑااورآج کاسوشل میڈیا
سامری جادوگر کا بچھڑااورآج کاسوشل میڈیا
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے
کوہ طور پر چلے جانے کے بعد سامری جادوگرنے موقع کو غنیمت سمجھا کیوں کہ اس نے بنی اسرائیل کی ذہنیت کو دیکھ لیا تھا کہ
یہ ۲۳ سال جناب موسیٰ کی خدمات اور تبلیغ کے باوجود جب دریا کے پار بت پرستوں کو
دیکھتے ہیں تو ایک مصنوعی خدا کا مطالبہ کر دیتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی اس خواہش
کا سہارا لے کر اس نے ایک مجسمہ تیار کیا اور قوم میں اعلان کردیا کہ یہی تمہارا
اور موسیٰ کا خدا ہے۔ قوم نے اپنی جہالت و حماقت کی بنا پر ایک ایسے مصنوعی بچھڑے کی پرستش شروع کردی جو نہ اُنھیں کسی اچھی بات کی ہدایت کرسکتا تھا
اور نہ کسی برائی سے روک سکتا تھا یہاں تک
کے اس سلسلے میں انھوں نے جناب ہارون کی ایک نہ سنی۔ جس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ
گمراہ قوم نبی کے جانشین کی پرواہ نہیں کرتی ہے اور اپنے بنائے ہوئے کو ہر حق و
حقیقت پر مقدم کر دیتی ہے۔
قدرت نے اس خدا سازی کا ایک
ہی جواب دیا کہ آواز پیدا ہوجانا کمال
نہیں ہے۔ اتنا تو دیکھو کہ یہ نہ بات کرسکتا ہے اور نہ ہدایت کرسکتا ہے اور ایسا
عاجز و مجبور خدا نہیں ہوسکتا۔ اگر فرض کریں کہ وہ ایک حقیقی گوسالہ میں تبدیل ہوگیا تھا تب بھی وہ کسی صورت
لائق پرستش نہیں ہوسکتا بھلا وہ گوسالہ جو
نافہمی میں مشہور ہے یعنی اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تو یہ لائق پرستش کس طرح ہوسکتا
ہے۔
سرکارِ دو عالم کے بعد امت
اسلامیہ میں ایسا ہی انقلاب آیا تھا جیسا
کہ جناب موسیٰ کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل میں آیا تھا۔ قوم نے
صرف آواز کو ہنر بنالیا اور ہدایت کی صلاحیت کو یکسر نظر انداز کردیا۔ اور یہ
سلسلہ آج تک جاری ہے کہ بعض لوگ آوازیں تو نکالنا جانتے ہیں لیکن ہدایت سے خالی
ہوتے ہیں۔ قوم کو سوچنا چاہیے کہ صرف آوازوں اور ترنم کے پیچھے نہ جائے بلکہ مقصد
عزاداری یعنی ہدایت پرنظر رکھے۔
سامری کا بچھڑا اور آج کا
سوشل میڈیا
موسیٰ کی قوم نے زیورات
سے مجسمہ بنایا جس میں آواز بھی تھی اور وہ کوئی غیرمعمولی بے وقعت چیزوں سے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ قیمتی طلائی زیورات
سے بنایا گیا تھا اس پر بڑا سرمایہ لگایا تھا اور اس میں آواز بھی پیدا کی
گئی تھی تاکہ صرف تصویر نہ ہو بلکہ تصویر کے ساتھ آواز بھی ہو کیونکہ
بھرپورگمراہی کے لئے صرف تصویر کافی نہیں ہوتی، آواز بھی ضروری ہوتی ہے۔تو آج کے
بڑے بڑے سامریوں نے کثیر سرمایہ خرچ کرکے مختلف سوشل میڈیا چینلز کے بچھڑے بنالیے
ہیں جن میں تصویر کے ساتھ ساتھ مختلف پرکشش آوازیں بھی ڈال دی گئی ہیں اور قوم ہے کہ قوم بنی اسرئیل کی طرح ہارون
زمانہ جانشین مصطفی ؐ وارث انبیاء کی اطاعت و سیرت کو چھوڑ کر بچھڑے کی پرستش میں
لگ گئی ہے۔وہ پردۂ غیب سے مسلسل آوازیں دے رہا ہے؟ کتنے لوگ ہیں جو اس کی آواز
ہدایت پر لبیک کہہ رہے ہیں اور حرام سے بچ رہے ہیں، گناہوں سے کنارہ کش ہیں۔ کنیزی
حضرت زینبؑ کا دعویٰ کرنے والی کتنی خواتین ہیں جو اس وارث مرتضیٰ، دلبند زہرا ؑ
محافظ عظمت زینب کبریٰ کی سیرت پر چل رہی ہیں؟ یا اسی سامری کے بچھڑے یعنی چینلز
کی آوازوں پر اپنے کانوں کو جمائے ہوئے ہیں۔ سوچیں شادی بیاہوں میں ہماری خواتین
کالباس خوشنودی زہرا وزینب علیہما السلام
کا باعث ہوتا ہے یا موجودہ سامریوں کی خواہش کے مطابق ؟
بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے عوامل
۱۔ ماحول کا اثر؛ بنی اسرائیل
عرصہ دراز سے مصریوں کی گوسالہ پرستی کو دیکھ رہے تھے جس کا ان کے ذہنوں پر مسلسل
ایک خاص اثر ہو رہا تھا۔
۲۔ جب وہ فرعون کے چنگل سے
نجات حاصل کرکے دریائے نیل کے پار پہنچے تو انھوں نے وہاں بت پرستی (بشکل گوسالہ
پرستی) دیکھی جس نے ان کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرلیا تھا جیساکہ اس سے ماقبل کی
آیات میں موجود ہے کہ انہوں نے موسیٰ سے پرستش کے لیے ان کے جیسے بت کا تقاضا کیا
تھا جس نے حضرت موسیٰ سے ان کی کافی سرزنش کی تھی۔
۳۔ حجت
خدا کی غیبت اور قوم کی آزمائش: جب حضرت
موسیٰ اپنی قوم سے جدا ہوکر تیس دن کے لیے کوہ طور پر گئے اوروہاں اللہ نے مزید دس
دن کے لیے انہیں روک لیا تو منافقین نے حضرت موسیٰ کی موت کا چرچا کرنا شروع کر
دیا جیسا کہ بعض تفاسیر میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ جس میں قوم کی آزمائش تھی کہ وہ اس
دوران راہ موسیٰ پر قائم رہتے ہیں یا چھوڑ دیتے ہیں۔
۴۔ جہل و نادانی؛ قوم کے اکثر
لوگوں کی نادانگی و جہالت کے سبب عیار و مکار لوگوں نے اپنے ناپاک مقاصد کے حصول
کے لیے اس موقع کو اپنے لیے غنیمت سمجھا اورقوم کو حقیقت سے دور کرکے بچھڑا پرستی
پر لگا دیا۔
۵۔ زرق و برق ظاہری؛ بچھڑے کے
ظاہری زرق و برق ہونے نے بھی انہیں اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔
۶۔ جھوٹی تبلیغات اور شور و
غوغا؛ بچھڑے میں جھوٹی آواز پیدا کرکے اس کا اتنا چرچا کیا گیا کہ جو لوگ سادہ لوح
تھے وہ سامری کی جھوٹی تبلیغات اور شور و غوغا میں آگئے۔