Friday, June 3, 2016

Computer ki ahmiat


computer ki ahmiat
computer ki ahmiyat

کمپیوٹر پر مضمون
            کمپیوٹر کے  اگر لفظی معنی کیے  جائیں  تو اس کا مطلب ہے  حساب کرنے  والی مشین( حساب کنندہ) لیکن زمانۂ حال میں اس کی یہ تعریف اس کی افادیت کا احاطہ نہیں  کرتی کیوں  کہ آج کمپیوٹر صرف ایک حسابی مشین نہیں  ہے  آج ہر شعبہ میں  کمپیوٹر کی بڑی اہمیت ہے بلکہ کمپیوٹر آج کے جدید معاشرے کا لازمی جز ہے  چاہے    تعلیم ہو، کھیل تفریح ہو، مواصلات یا سفر ہو، کوئی انڈسٹری ہویا ہسپتال ہوہر جگہ کمپیوٹر کی اہمیت ، افادیت اور ضرورت دیکھی جاسکتی ہے ۔
کمپیوٹر کی تاریخ بہت پرانی ہے  لیکن بجلی سے  چلنے  والا کمپیوٹر بیسویں  صدی کی ایجاد ہے ، اپنی ایجاد کے  اوائل میں  کمپیوٹر مخصوص کام ہی کرتا تھا اور اس میں  بہت تھوڑے  مواد کو محفوظ کیا جاسکتا تھالیکن وقت گزرنے  کے  ساتھ ساتھ کمپیوٹرنے  اتنی ترقی کی کہ اب اس میں  اتنی معلومات اور یاد اشت کو محفوظ کرنے  کی صلاحیت ہو تی ہے  جس کو محفوظ کرنے  کے  لیے  کئی لائبریریاں  درکار ہوں ۔ کمپیوٹر سے  انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں  بہت آسانیاں  اور سہولتیں  پیدا ہو گئی ہیں   جن کاموں  کے  لیے  لمبی قطاریں  بنا کر کر گھنٹوں  انتظار کرنا پڑتا تھا اب وہ کام چند منٹوں  میں  ہو جاتے  ہیں، دنیا بھر میں  ترقی یافتہ ممالک زندگی کے  ہر شعبے  میں  کمپیوٹر کا استعمال بڑھاتے  چلے  جا رہے  ہیں  تاکہ ہر قسم  کے  معاملات اور مسائل کو کم وقت میں  حل کیا جا سکے۔   سائنس اور ٹیکنالوجی کے  تعلق سے  حاصل ہونے  والی ایجادات نے  انسانی معاشرے  میں  ایک انقلاب پیدا کر دیا ہے   اس لیے  اگر اس صدی کو کمپیوٹر کی صدی کہا جائے  تو بے  جا نہ ہو گا۔ اس وقت کمپیوٹر کی اہمیت اور ضرورت سے  انکار نہیں  کیا جاسکتا۔ کمپیوٹر ہر عمراورہرطبقے  کے  لوگوں  کی ضروریات پوری کرتانظرآتا ہے۔  

کمپیوٹر کی تاریخ بہت پرانی ہے  لیکن بجلی سے  چلنے  والا کمپیوٹر بیسویں  صدی کی ایجاد ہے ، اپنی ایجاد کے  اوائل میں  کمپیوٹر مخصوص کام ہی کرتا تھا اور اس میں  بہت تھوڑے  مواد کو محفوظ کیا جاسکتا تھالیکن وقت گزرنے  کے  ساتھ ساتھ کمپیوٹرنے  اتنی ترقی کی کہ اب اس میں  اتنی معلومات اور یاد اشت کو محفوظ کرنے  کی صلاحیت ہو تی ہے  جس کو محفوظ کرنے  کے  لیے  کئی لائبریریاں  درکار ہوں ۔ کمپیوٹر سے  انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں  بہت آسانیاں  اور سہولتیں  پیدا ہو گئی ہیں   جن کاموں  کے  لیے  لمبی قطاریں  بنا کر کر گھنٹوں  انتظار کرنا پڑتا تھا اب وہ کام چند منٹوں  میں  ہو جاتے  ہیں، دنیا بھر میں  ترقی یافتہ ممالک زندگی کے  ہر شعبے  میں  کمپیوٹر کا استعمال بڑھاتے  چلے  جا رہے  ہیں  تاکہ ہر قسم  کے  معاملات اور مسائل کو کم وقت میں  حل کیا جا سکے۔   سائنس اور ٹیکنالوجی کے  تعلق سے  حاصل ہونے  والی ایجادات نے  انسانی معاشرے  میں  ایک انقلاب پیدا کر دیا ہے   اس لیے  اگر اس صدی کو کمپیوٹر کی صدی کہا جائے  تو بے  جا نہ ہو گا۔ اس وقت کمپیوٹر کی اہمیت اور ضرورت سے  انکار نہیں  کیا جاسکتا۔ کمپیوٹر ہر عمراورہرطبقے  کے  لوگوں  کی ضروریات پوری کرتانظرآتا ہے۔ کمپیوٹر دُنیا بھر کے لوگوں کو ای میل، فوری پیغام رسانی، اور ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے دنیا میں کہیں سے بھی ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل بناتا ہے کہیں  یہ بچوں  کو گیمز کے  ذریعے  تفریح مہیا کرتا ہے ، کہیں  یہ اسکول، کالجز اور جامعات کے  طلباء کی تعلیمی ضروریات کو پوار کرتا ہے  انٹرنیٹ کے ذریعے بہت ساری معلومات اور علم تک رسائی فراہم کرتا ہے، جس سے تحقیق، تعلیم اور سیکھنے کو آسان اور زیادہ موثر بنایا جاتا ہے  تو کہیں  یہ بڑے  بڑے  سائنسدانوں ، ڈاکٹرز اور انجینئرز کی مشکلات ان کی تجربہ گا ہوں میں  حل کرتا ہوا نظر آتا ہے  یہ بغیر کسی غلطی کے  تمام کام یکساں  رفتارسے  کرتا ہے  تھکتا بالکل نہیں  نہ کبھی پریشان ہوتا ہے بہت سے کاموں کو خودکار طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کی یاداشت اتنی تیز اور اچھی ہوتی ہے  کہ کافی عرصہ گزرجانے  کے  بعد بھی ہماری بتائی ہوئی باتوں  کو یاد رکھتا ہے ان تمام افادیتوں کے پیشِ نظیر  کمپیوٹر ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایک ناگزیر ذریعہ بن گیا ہےاس کی ضرورت و اہمیت کو دیکھتے ہوئے وہ لوگ بھی اس کی افادیت کے  قائل ہو چکے  ہیں  جو اسے  وقت کاضیاع یا صرف کھیل تفریح کا ذریعہ ہی سمجھتے  تھے

کمپیوٹر کی اہمیت و ضرورت:      

عظیم   عارض6 جون2016

Labels:

Pehli Darsgah



پہلی درس گاہ
بچہ ماں کی آغوشِ شفقت میں ہے ماں بچے کی شہادت والی ننھی منی سی اُنگلی اُٹھا کر اُسے پڑھا رہی ہے اللہ ایک ، اللہ ایک ، اللہ ایک بچہ اپنی آدھی اُنگلی سیدھی کرنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کررہا ہے اور ماں کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ رہا ہے  اُس کے کان ماں کی  آواز پر لگے ہوئے ہیں  وہ ماں کی زبان سے ادا کیے جانے والے کلمات کو اپنے ذہن میں محفوظ کررہا ہے اور شاید دل ہی دل میں دہرانے کی کوشش بھی کررہا ہو پھر ایک  وقت ماں بچے کی غذائی ضرورت پوری کرنے کے بعد اُس کے ننھے ننھے ہاتھوں کو اُٹھا کر کہتی ہے  کہو بیٹا یا  اللہ تیرا شکر ہے ( اللہ شکر کرو)بچہ  ماں کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے ، ماں کا مکمل دھیان بچے کی کی حرکات و سکنات پر مرکوزہے   بچہ بھی ماں کی ہر آوازاور ہر عمل کا مشاہدہ کررہا ہے  اور ماں کے دائرۂ شفقت میں خوشی اور تحفظ محسوس کررہا ہے ،  پھرکچھ ہی دیر بعدمحلّے کی مسجد سے آوازِ اذاں سنائی دی ماں نے بچے کواپنی آغوش سے اُٹھا کر اُسے اُس کے بچھونے پر لٹادیا بچے کی نظریں ماں پر لگی ہوئی ہیں وہ ماں کو وضو کرتے دیکھ رہاہے، مصلّہ بچھاتے دیکھ رہاہے مصلّے پر کھڑے ہوکرکچھ پڑھتے اور اعمال کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے پھر ماں اسے آغوش میں لے کر بیٹھ جاتی ہے اورتسبیح  پڑھنے لگتی ہے ، اللہ اکبر ، الحمداللہ، سُبحان اللہ، یہ کلمات بچے کے ذہن پر اپنے اثرات مرتب کرنا شروع کرتے ہیں اور بچہ زندگی کے ابتدائی ایّام میں بندگی کے ان کلمات سے مانوس ہوتا چلا جاتا ہے، بچہ روزانہ  پابندی کے ساتھ ماں کو یہ اعمال کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے اور یہ سمجھنے کی کوشش کررہا ہے کہ شاید یہ کوئی بہت ضروری عمل ہے کہ کانوں میں ایک آواز آتی ہے اور ماں  سارے کام چھوڑ کریہ مخصوص اعمال شروع کردیتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ بچے کی  جسمانی نشو نما کے ساتھ ساتھ ذہنی نشو نما بھی ہورہی ہے  گھر میں وہ کچھ اور لوگوں کو بھی دیکھ رہا ہے جو بچے کے والد، دادا ،   دادی  اور پھپھوہیں  بچہ  دیکھ رہا ہے کہ ماں کس طرح ان کے ساتھ پیش آرہی ہے،    بچے نے جو اعمال ماں کو انجام دیتے دیکھا یہ وہی کرنا شروع کردے گا شاید اسے کہنے کی بھی ضرورت نہ پڑے  ، یعنی  روزِ اوّل سے دینی تربیت بھی ہورہی ہے اور دُنیاوی تربیت بھی ،  جی ہاں یہ  ہی ماں ہے  جوبچے کی پہلی درس گاہ  کہلانے کی مستحق ہے۔
  آج کل جو ہورہا ہے وہ سب جانتے ہیں ، فقط یہ کہنا کہ ماحول خراب ہے تو جناب ماحول آغوش مادر سے ہی شروع ہوجاتا ہے  اور تربیت شکم مادرسے ۔
تحریر: عظیم  عارض   ؔ  3جون2016

Labels: