Saturday, February 10, 2024

بنی اسرائیل کی گائے کا واقعہ

بنی اسرائیل کی گائے کا واقعہ

بنی اسرائیل کی گائے کا واقعہ

بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نامعلوم طور پر قتل ہوجاتا ہے اس کے قاتل کا کسی طرح پتہ نہیں چلتا بنی اسرائیل کے قبائل کے درمیان جھگڑا شروع ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے قبیلے اور دیگر لوگوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اور خود کو بری الذمہ قرار دیتا ہے، جھگڑا ختم کرنے کے لئے مقدمہ حضرت موسیٰ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور لوگ آپ سے اس موقع پر مشکل کشائی کی درخواست کرتے ہیں اور اس کا حل چاہتے ہیں  چونکہ عام اور معروف طریقوں سے اس مسئلہ کا فیصلہ ممکن نہ تھا اور دوسری طرف اس کشمکش کے جاری رہنے سے ممکن تھا بنی اسرائیل میں ایک عظیم فتنہ کھڑا ہوجاتا لہذا جیسا کہ آپ ان آیات کی تفسیر میں پڑھیں گے حضرت موسیٰ پروردگار سے مدد لے کر اعجاز کے راستے اس مشکل کو حل کرتے ہیں
قرآن نے فرمایا: یاد کرو اس وقت کو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا ( قاتل کو تلاش کرنے کے لئے ) پہلی گائے ( جو تمہیں مل جائے اس کو ذبح کرو
انہوں نے بطورتعجب کہا: میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں یعنی استہزاء اور تمسخر کرنا نادان اور جاہل افراد کا کام ہے اور خدا کا رسول یقینا ًایسا نہیں ہے۔
اس کے بعد انہیں اطمینان ہوگیا کہ استہزاء و مذاق نہیں بلکہ سنجیدہ گفتگو ہے تو کہنے لگے: اب اگر ایسا ہی ہے تو اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمارے لیے مشخص و معین کردے کہ وہ گائے کس قسم کی ہو؟
اپنے خدا سے کہو " ان کے سوالات میں یہ جملہ بتکرار آیا ہے۔ اس میں ایک طرح کا سوئے ادب یا سربستہ استہزاء و مذاق پایا جاتا ہے۔ یہ کیوں نہیں کہتے تھے " خدا سے دعا کیجئے "  یعنی وہ حضرت موسیٰ کے خدا کو اپنے خدا سے جدا سمجھتے تھے۔
بہر حال حضرت موسیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا: خدا فرماتا ہے ایسی گائے ہو جو نہ بوڑھی ہو اور بے کار ہوچکی ہو اور نہ ہی جوان بلکہ ان کے درمیان ہو ۔
اس مقصد کے لیے کہ وہ اس سے زیادہ اس مسئلے کو طول نہ دیں اور بہانہ تراشی سے حکم ِ خدا میں تاخیر نہ کریں اپنے کلام کے آخر میں مزید کہا: جو تمہیں حکم دیا گیا ہے ( جتنی جلدی ہوسکے اسے انجام دولیکن انہوں نے پھر بھی زیادہ باتیں بنانے اور ڈھٹائی دکھانے سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور کہنے لگے: اپنے پروردگار سے کہو کہ وہ ہمارے لیے واضح کرے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟
موسیٰ نے جواب میں کہا: وہ گائے ساری کی ساری زرد رنگ کی ہو جس کارنگ دیکھنے والوں کو بھلا لگے ۔
خلاصہ یہ کہ وہ گائے مکمل طور پر خوش رنگ اور چمکیلی ہو ایسی دیدہ زیب کہ دیکھنے والوں کو تعجب میں ڈال دے ۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس پر اکتفاء نہ کیا اور اسی طرح ہر مرتبہ بہانہ جوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو اور مشکل میں ڈالتے گئے پھر کہنے لگے اپنے پروردگار سے کہیے کہ ہمیں واضح کرے کہ یہ گائے ( کام کرنے کے لحاظ سے ) کیسی ہونی چاہیے؟
کیونکہ یہ گائے ہمارے لیے مبہم ہوگئی ہے اور اگر خدا نے چاہا تو ہم ہدایت پالیں گے۔
حضرت موسیٰ نے پھر سے کہا: خدا فرماتا ہے وہ ایسی گائے ہو جو اتنی سدھائی ہوئی نہ ہو کہ زمین جوتے اور کھیتی سینچے  ہر عیب سے پاک ہو حتی کہ اس میں کسی قسم کا دوسرا رنگ نہ ہو۔
اب بہانہ سازی کے لیے ان کے پاس کوئی سوال باقی نہ تھا، جتنے سوالات وہ کر سکتے تھے سب ختم ہو گئے تو کہنے 
لگے: اب تم نے حق بات کہی ہے

سامری جادوگر کا بچھڑا اورآج کا سوشل میڈیا


پھر جس طرح ہوسکا انہوں نے وہ گائے مہیا کی اور اسے ذبح کیا لیکن در اصل وہ یہ کام کرنا نہ چاہتے تھے۔
 ان تمام واقعات کے بعد اور اس قسم کے آیا ت و معجزات دیکھنے کے باوجود تمہارے دل پتھر کی طرح سخت ہیں اور اس سے بھی زیادہ کیونکہ کچھ پتھر تو ایسے ہیں جن میں دراڑ پڑ جاتی ہے اور ان سے نہریں جاری ہوجاتی ہیں یا پھر بعض وہ ہیں جن میں شگاف پڑ جاتا ہے اور ان میں سے پانی کے قطرات ٹپکنے لگتے ہیں اور کبھی ان میں سے کچھ پتھر ( پہاڑ کی بلندی سے ) خوفِ خدا کے باعث گر پڑتے ہیں لیکن تمہارے دل تو ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہیں ۔ ان سے نہ علم و عواطف کا چشمہ جاری ہوتا ہے نہ محبت کے قطرات ٹپکتے ہیں اور نہ ہی یہ کبھی خوف ِ خدا سے دھڑکتے ہیں۔
آخر ی جملے میں ہے: جو کچھ تم انجام دے رہے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے ۔
یہ در اصل اس گروہ بنی اسرائیل اور ان کے خطوط پر چلنے والے تمام لوگوں کے لئے تہدید ہے۔
زیادہ اور غیر مناسب سوالات
اس میں شک نہیں کہ سوالات مشکلات کے حل کی کلید ہیں اور جہل و نادانی کو دور کرنے کا نسخہ ہیں لیکن ہر چیز کی طرح اگر یہ بھی حد سے تجاوز کر جائیں یا بے موقع کئے جائیں تو کجروی کی علامت ہیں اور نقصان دہ ہیں جیسے اس داستان میں ہم اس کا نمونہ دیکھ رہے ہیں۔
بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں۔ اس میں شک نہیں کہ اگر اس گائے کی قید یا خاص شرط ہوتی تو خدائے حکیم و دانا جب انہیں حکم دے رہا تھا اسی وقت بیان کردیتا لہذا معلوم ہوا کہ اس حکم کو بجالانے کےلیے کوئی شرط نہ تھی اسی لیے لفظ "بقرة " اس مقام پر نکرہ کی شکل میں ہے لیکن وہ اس مسلمہ بنیاد سے بے پرواہ ہوکر طرح طرح کے سوالات کرنے لگے۔ شاید وہ یہ چاہتے ہوں کہ حقیقت مشتبہ ہوجائے اورقا تل کا پتہ نہ چل سکے اور یہ اختلاف اسی طرح بنی ا سرائیل میں رہے اور قرآن کا یہ جملہ   بھی اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی " انہوں نے گائے ذبح کر تو دی لیکن وہ چاہتے نہ تھے کہ یہ کام انجام پائے "۔
اس داستان کے سلسلے کی آیت ۷۲ سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں سے کم از کم ایک گروہ قاتل کو جانتا تھا اور اصل واقعے سے مطلع تھا۔ شاید یہ قتل ان کے سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق کیا گیا تھا کیونکہ اس آیت میں ہے یعنی تم جسے چھپاتے ہو خدا اسے آشکار کردے گا۔
ان سب سے قطع نظر ہٹ دھرم اور خود پسند قسم کے لوگ باتیں بنایا کرتے ہیں اور زیادہ سولات کرتے ہیں اور ہر چیز کے لیے بہانہ سازی کیا کرتے ہیں۔
قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ اصولی طور پر وہ خدا کے متعلق معرفت رکھتے تھے اور نہ ہی حضرت موسی ٰ کے مقام کو سمجھتے تھے اسی لئے تو ان سب سوالوں کے بعد یہ کہنے لگے {الآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ} یعنی اب تم حق بات لائے ہو گویا اس سے پہلے جو کچھ تھا باطل تھا۔
بہر حال انہوں نے جتنے سوالات کئے خدا نے ان کی ذمہ داری کو اتنا ہی سخت تر کر دیا کیونکہ ایسے لوگ اسی قسم کے بدلے کے مستحق ہوتے ہیں۔ 
ڈاکٹرسید بہادر علی زیدی

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home