ہم توفقط امام کی تقلید کریں گے کسی مولوی کی نہیں
ہم توفقط امام کی تقلید کریں گےکسی مولوی کی نہیں
اس بات سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا کہ دین کی اصل دعوت یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی طاعت کی جائے، یہاں تک کہ نبی کریم ﷺکی اطاعت بھی اس لیے واجب ہے کہ حضور ﷺنے اپنے قول و فعل سے احکامِ الٰہی کی ترجمانی فرمائی ہے،
قرآن و سنت میں بعض احکام تو ایسے ہیں کہ جنھیں ہر معمولی لکھا
پڑھا آدمی سمجھ سکتا ہے، ان میں کوئی اِجمال (اختصار)، اِبہام (غیر واضح) یا تعارض (مخالفت، باہمی ضد) نہیں ہے
بلکہ جو شخص بھی انھیں پڑھے گا وہ کسی
اُلجھن کے بغیر اُن کا مطلب سمجھ لے گا۔
اصولِ دین (توحید ، عدل ، نبوت ،ا مامت ، قیامت)
جیسے:
قرآن و سنت کے متفقہ اور قطعی احکام میں کسی اجتہاد و تقلید کی
ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ ہی جائز ہے کیونکہ اس میں کوئی پیچیدگی اور اشتباہ نہیں۔
اس کے برعکس قرآن و سنت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں کوئی
اِبہام یا اِجمال پایا جاتا ہے، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو قرآن ہی کی کسی دوسری آیت یا آں حضرت ﷺ ہی کی کسی دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتے
ہیں۔
جیسے: عبادات اور معاملات وغیرہ کے فروعی مسائل، جن
میں اجتہاد کیا جاتا ہے اور علماء کا اختلاف ہوتا ہے۔
اب قرآن و حدیث سے احکام کے مستنبط کرنے کی دو صورتیں
ہیں
ایک صورت تو یہ ہے کہ ہم اپنی فہم و بصیرت پر
اعتماد کر کے اس قسم کے معاملات میں خود کوئی فیصلہ کر لیں اور اس پر عمل کریں۔
اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات میں از خود کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے
یہ دیکھیں کہ قرآن و سنت کے ان ارشادات سے ہمارے جلیل القدر اسلاف نے کیا سمجھا
ہے؟ چنانچہ جن بزرگوں کو ہم علومِ قرآن و
سنت کا زیادہ ماہر پائیں ان کی فہم و
بصیرت پر اعتماد کریں اور انھوں نے جو کچھ سمجھا ہے اس کے مطابق عمل کریں۔
آج کل بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کسی مولوی کی تقلید
نہیں کریں گے۔ ہم صرف امام ؑ کی تقلید کریں گے۔
بنی اسرائیل کا سب سے بڑا
دعویٰ یہ تھا کہ اگر نبی ، بنی اسرائیل سے نہ ہوگا تو ہم اس پر ایمان نہ لائیں گے اور صرف اس کتاب پر
ایمان لائیں گے جو خود اِن پر نازل ہوئی ہے۔
قرآن کریم نے ان کے دعوؤں
کی طرف متوجہ کرتے ہوئے بیان کیا ہے۔
اگر تم
اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو تم موسیٰ کو چھوڑ کر گوسالہ پرستی (بچھڑے ) کی طرف
کیوں چلے گئے؟
تمہارے سروں پر کوہ طور کو
معلق کردیا اور تم سے عہد لیا کہ توریت کے قوانین پر سختی سے عمل کرو، لیکن
تم نے کہا کہ ہم نے سن لیا ہے لیکن عمل
نہیں کریں گے۔ اب اگر اس وجہ سے قرآن و پیغمبرؐ اسلام پر ایمان نہیں لا رہے
ہو کہ وہ تم میں سے نہیں ہیں اور قرآن بنی
اسرائیل پر نازل نہیں ہوا ہے تو پھر تم نے موسیٰ اور توریت کے ساتھ وہ سلوک کیوں کیا کہ ان کو چھوڑ کر سامری اور گوسالہ کے پیچھے
چل دیئے۔
بالکل اِسی طرح آج کل بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کسی مولوی کی
تقلید نہیں کریں گے۔ ہم صرف امام کی تقلید کریں گے۔
اب اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو پھر ۔۔۔
دفتروں میں بیٹھ کر رشوت
کیوں لیتے ہیں؟
حلال کو کیوں ترک کرتے ہیں
؟
حرام سے کیوں نہیں بچتے ؟
ایک
دوسرے کا حق کیوں مارتے ہیں؟
ناپ تول میں کمی کیوں کرتے
ہیں؟
کیا یہ سب سیرتِ امام ؑ کے خلاف اعمال نہیں ہیں؟
تو ہم اسی آیت کریمہ کا سہارا لیکر کہیں گے کہ تم بنی اسرائیل کی طرح امام معصوم ؑ
کو چھوڑ کر وقت کے سامریوں اور بچھڑوں کے پیچھے کیوں چلے گئے؟
دوسری بات یہ کہ اگر بنی
اسرائیل اپنے دعوے میں سچے ہیں کہ جو کچھ ان پر نازل ہوا اس پر ایمان لائیں گے تو
جواب دیں کہ یہ ظلم وستم کیا ان کی
تعلیمات میں سے ہے؟ اس کی کیا توجیہ پیش کریں گے؟ گوسالہ پرستی، پیغمبروں کا قتل
اور پیمان شکنی کیا ان کے جزو ایمان میں سے ہے؟
اسی طرح ہم یہاں علما کی مخالفت کرنے والوں سے سوال کریں گے کہ اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو کہ جو کچھ ائمہ ؑ کی روایات و سیرت میں آیا ہے بس اسی پر عمل کریں گے تو جواب دیں کہ نماز سے دُوری ، وعدہ شکنی، بے پردگی، الزام تراشی، سُودخوری کیا ائمہ ؑ کی تعلیمات میں سے ہے؟ یہ بھنگ و چرس کس امام کی تعلیم ہے؟ اس کی کیا توجیہ پیش کریں گے؟
0 Comments:
Post a Comment
Subscribe to Post Comments [Atom]
<< Home