azad | tum azad ho | azadi | safar e ishq
azad | tum azad ho | azadi | safar e ishq
آزاد
۔ تم آزاد ہو ۔ آزادی ۔ سفرِ عشق
تحریر:
عظیم عارضؔ
ایک
مسافر اپنے خاندان والوں کو لے کر ایک ایسے ظالم و جابر بادشاہ کو خدائی حدود کی
پامالی سے روکنے کی غرض سے سفر پر نکلا جو حکومت و طاقت ، غرور و تکبر کے نشے میں خدائی احکامات کو روند دینا چاہتا تھا۔
حالانکہ یہ سفر مشکلات اور دُشوار راستوں سے گزرتا
تھا ، جو بھی اس راستے کی طرف نکلا وہ کرب اور بلاؤں میں مبتلا ہوا لیکن اس مسافر کے دل میں ایمان و ثابت قدمی کی روح تھی قوتِ ارادی انتہائی مضبوط تھی۔
وہ اچھائیوں کو
برائیوں سے اور نیکی کو بَدی سے الگ کرنا چاہتا تھا اُس کے اس سفر کا مقصد عوام کے اندر یہ شعور بیدارکرنا
تھا کہ کیا اچھائی ہے اور کیا بُرائی ہے
وہ ہر فرد کے اندر یہ طاقت پیدا کرنا چاہتا تھا کہ وہ اچھائی کو اچھائی اور بُرائی
کو بُرائی کہہ سکے اور اس کے خلاف آواز بَلند کرسکے۔ کیوں کہ بادشاہِ وقت بُرائیوں
کو اچھائی بناکر پیش کررہا تھا خدا ئی
حدود کو پامال کرنے کے دَر پے تھا۔
سفر
میں مسافر اور اس کےخاندان کے لوگ جنگلوں ،پہاڑوں اور دُشوار گزار راستوں سے گزرتے رہے راستے میں ہر
طرح کے موسم ، گرمی، سردی، خشکی، غبار اور طوفانی بارشوں کا سامنا ہوا لیکن مسافر
اور اس کے خاندان کے افراد ثابت قدمی سے اپنی منزل کی جانب بڑھتے رہے۔ مسافر تمام
لوگوں کو دُنیا و آخرت کی سلامتی فراہم کرنا چاہتا تھا۔
مسافر
نے خدائی قوت سے اور ہمدردی کی روح سے جگہ
جگہ اپنے خطبات سے لوگوں کو سمجھانے کی
کوشش کی۔
وہ چاہتا تھا کہ لوگ عدل و انصاف سے رہیں۔
مسافرنے اُنہیں بتایا کہ خدا نے انہیں حاکم بنایا ہے محکوم نہیں ، اُنھیں آزاد بنایا ہے غلام نہیں
اچھائی اور بُرائی کا امتیاز
رکھیں اور اپنی طاقت ، حیثیت اور اپنی
ذہنی صلاحیتوں کو ظالم کے لیے نہیں مظلوم کے لیےاستعمال کریں۔
مسافر نے سب کو خدائی راستے کی ہدایت کی اور
بادشاہ ِ وقت کو خدائی حدود کی پامالی سے باز رہنے تلقین کی۔
بادشاہ کو اس پر شدید غصہ
تھا اس نے مسافر اور اس کے خاندان والوں
کو نقصان پہنچانے کی ہرممکن کوشش کی۔ لیکن مسافر قوت اور صبر سے کام لیااور اپنےمقصد
پے قائم رہا۔مسافر نے اپنے ہر عمل سے دُنیا کو واضح دکھایا کہ
مسافر اور اس کا خاندان خدا کی حمایت میں ہیں اور کوئی بھی شیطانی طاقت انھیں نہیں روک سکتی۔
راستے
میں مسافر کا سامنا بادشاہ کے سپاہیوں کی ایک جماعت سے بھی ہوا اُس
فوج کے سپہ سالار نے مسافر کا راستہ روکا
کچھ
تلخ کلامی کی نوبت بھی آئی لیکن فوج کا سپہ سالار اس مسافر کو پہچان گیا تھا اور
اُس مسافر کی حقیقت سے واقف تھا
اس
لیے اُس نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے خودکو مسافر کی بے ادبی سے باز رکھا اور اپنے
گزشتہ رویے پر پشیمان ہوا
اس
کے لشکر میں دانہ پانی کا ذخیرہ ختم ہوچکا
تھا اس کی فوج کے سپاہی اور جانور پیاس کی شدت سے بیتا ب ہورہے تھے
مسافر نے یہ حالت دیکھ کر اپنے ساتھیوں
کو حکم دیا کہ اِن کی فوج کے ہر سپاہی کو اس کی سواری (جانور) سمیت سیراب کیا جائے
جانور جب تک پانی سے خود منھ نہ ہٹالے اس وقت تک اُسے پانی پینے دیا جائے ۔
مسافر
اُس سپہ سالار کی فوج کو مکمل سیراب کرنے کے بعد اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ وہاں سے
آگے بڑھا ۔
ادھر
سپہ سالار مسافر کی خاندانی شرافت کا پہلے
ہی قائل تھا اور مسافرکے اس عمل کے بعد تو اپنی جانب سے کیےجانے والے عمل پر ،اور بھی زیادہ شرمندگی محسوس کرتا رہا کہ اُس نے اُس مسافر کا راستہ روکا تھا
یہاں تک کہ ساری رات سپہ سالار نے خود کو ملامت کرتے ہوئے جاگ کر گزاری کہ میں نے
اس مسافر کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اس سپہ سالارکا یہ اضطراب دیکھتے ہوئے اس کے غلام
اور اس کے بھائی نے سبب دریافت کیا تو سپہ
سالار نے ساری بات بتاتے ہوئے اشکبار آنکھوں کے ساتھ کہا کہ میں اس مسافر کے پاس مجرموں کی طرح ہاتھ باندھ کر
اور آنکھوں پر پٹی باندھ کر جاؤں گا اُس کا دل بہت وسیع ہے اور مجھے یقین ہے کہ مجھے معافی مل جائے گی
اس کا غلام اور اس کا بھائی بھی سپہ سالار کے ساتھ ہولیے اور مسافر کے پاس آکر معافی مانگی مسافر نے سپہ سالار کو آگے بڑھ کر گلے لگالیا اور فرمایا : اپنی آنکھوں پر سے پٹی کھول دو اپنے ہاتھوں کو بھی اس رسن سے آزاد کردو کہ تم آزاد ہو ۔